یادوں کے چراغ
جدائیوں کا اک اور سال گزر گیا۔ میں کچھ دنوں سے اُداس تھا بہت اُداس۔ اماں اور ابا جی بہت یاد آ رہے تھے۔ میں نے پھیکے کو بلا بھیجا، چلے آؤ نا یار مل بیٹھیں تو کچھ ذکر خیر ہو بہت سی پرانی باتیں یاد آنے لگی ہیں ستانے لگی ہیں۔۔۔! “ایک منظر ہے کہ ہمدم ہمہ دم کھینچتے ہیں“ شاید عمر کے اس حصے میں یونہی ہوا کرتا ہے۔ “ہم نہیں ہوں گے تو ہماری باتوں کی سمجھ آئے گی پُتر“ ٹھیک ہی تو کہا کرتے تھے ابا جی۔ ڈھلتی شام پھیکے کے آنے کا سندیسہ لائی دل ٹہرنے لگا۔ ہم اُس رات یادوں سے چراغاں کرتے رہے کندن جیسی شام پہلو میں رکھے یاد رفتگاں سے دل کو سجاتے رہے۔ “محافظِ روش رفتگاں ہمیں تو ہیں ہمیں تو ہیں“ افتخار عارف صاحب نے کہا تھا۔ “گزشتگان محبت کے خواب لکھنے کو ابھی تو میں ہوں گزشتگان محبت کے خواب لکھنے کو ابھی تو میں ہوں مگر بعد ازاں کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے” مجھے وہ خواب لکھنے تھے مگر میں انہیں لکھنے کے لیئے روشنائی کہاں سے لاتا۔ پھیکے سے یاری بڑھی تو جانا اُس کے پاس ان خوابوں کو لکھنے کے لیئے سنہری روشنائی تھی۔ اُس کا ہاتھ تھام کر جو میں چلا تو جانا، جانے والوں کے دلوں سے ہو کر گزرنے وال...