Posts

یادوں کے چراغ

جدائیوں کا اک اور سال گزر گیا۔ میں کچھ دنوں سے اُداس تھا بہت اُداس۔ اماں اور ابا جی بہت یاد آ رہے تھے۔ میں نے پھیکے کو بلا بھیجا، چلے آؤ نا یار مل بیٹھیں تو کچھ ذکر خیر ہو بہت سی پرانی باتیں یاد آنے لگی ہیں ستانے لگی ہیں۔۔۔! “ایک منظر ہے کہ ہمدم ہمہ دم کھینچتے ہیں“ شاید عمر کے اس حصے میں یونہی ہوا کرتا ہے۔ “ہم نہیں ہوں گے تو ہماری باتوں کی سمجھ آئے گی پُتر“ ٹھیک ہی تو کہا کرتے تھے ابا جی۔ ڈھلتی شام پھیکے کے آنے کا سندیسہ لائی دل ٹہرنے لگا۔ ہم اُس رات یادوں سے چراغاں کرتے رہے کندن جیسی شام پہلو میں رکھے یاد رفتگاں سے دل کو سجاتے رہے۔ “محافظِ روش رفتگاں ہمیں تو ہیں ہمیں تو ہیں“ افتخار عارف صاحب نے کہا تھا۔ “گزشتگان محبت کے خواب لکھنے کو ابھی تو میں ہوں گزشتگان محبت کے خواب لکھنے کو ابھی تو میں ہوں مگر بعد ازاں کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے” مجھے وہ خواب لکھنے تھے مگر میں انہیں لکھنے کے لیئے روشنائی کہاں سے لاتا۔ پھیکے سے یاری بڑھی تو جانا اُس کے پاس ان خوابوں کو لکھنے کے لیئے سنہری روشنائی تھی۔ اُس کا ہاتھ تھام کر جو میں چلا تو جانا، جانے والوں کے دلوں سے ہو کر گزرنے وال...

جنت کے حسین لمحات

جنت میں ابتدائی لمحات کتنے دلکش ہوں گے، جب ہم نہریں، محلات، جنتی پھل، خیمے، سونا، موتی اور ریشم دیکھیں گے جب ہم اپنے اُن عزیز و اقارب سے ملاقات کریں گے، جو عرصہ دراز پہلے فوت ہو گئے تھے اور ہماری نگاہوں سے اوجھل تھے جب نیکوکار بیٹا اپنے ماں باپ سے ملے گا اور والدین اپنے ان بچوں سے ملاقات کریں گے، جو بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے اور بھائی اپنے بھائی سے ملے گا، جو اس سے ملاقات کی خواہش رکھتا ہو گا جب ہم مریض کو شفایاب دیکھیں گے اندھے کو انکھیارا غمگین کو مسرور بوڑھے کو جوانی کی حالت میں دیکھیں گے یونہی بڑھیا کو، کہ اُسے بھی حُسن لوٹا دیا گیا ہے (اور کیسا حسین منظر ہو گا کہ) جب ہم انبیائے کرام علیہم السلام سے ملاقات کا شرف پائیں گے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو سلام پیش کریں گے علمائے امت سے مصافحہ کریں گے مجاہدینِ ملت کا دیدار کریں گے شہدائے اسلام کی زیارت کریں گے اور جاگتی آنکھوں سے فرشتوں کو دیکھیں گے پھر جب ہمیں نہرِ کوثر پر لے جایا جائے گا، تو وہاں ہمارے محبوب، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس ہمارا استقبال کریں گے اور ہمیں سونے کے برتنوں میں کوثر کے...

ڈپریشن کا شکار معاشرہ

ایک 55 سالہ شخص ڈِپریشن کا شکار تھا۔ اس کی بیوی نے ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی۔ بیوی نے کہا کہ میرا خاوِند شدید ڈِپریشن میں ہے براہِ کرم مدد کریں۔   ڈاکٹر نے اپنی مشاورت شروع کی۔ اس نے کچھ ذاتی باتیں پوچھی اور اُس کی بیوی کو باہر بیٹھنے کو کہا۔ صاحب بولے، میں بہت پریشان ہوں۔ دراصل میں پریشانیوں سے مغلُوب ہوں، ملازمت کا دباؤ، بچوں کی تعلیم اور ملازمت کا تناؤ، ہوم لون، کار لون، مجھے کچھ پسند نہیں۔ دنیا مجھے پاگل سمجھتی ہے لیکن میرے پاس اتنا سامان نہیں جتنا کہ ایک کارتوس میں گولِیاں، میں بہت اُداس اور پریشان ہوں. یہ کہہ کر اس نے اپنی پوری زندگی کی کتاب ڈاکٹر کے سامنے کھول دی۔ پھر ڈاکٹر نے کچھ سوچا اور پوچھا کہ آپ نے دسویں جماعت کس اِسکول میں پڑھی؟ اُس شخص نے اسے اِسکول کا نام بتایا۔ ڈاکٹر نے کہا، آپ کو اس اِسکول میں جانا ہے، پھر اپنے اسکول سے آپ کو اپنی دسویں کلاس کا رجسٹر تلاش کرنا ہے۔ اس میں اپنے ساتھیوں کے نام تلاش کرنے ہیں۔ ان کی موجودہ خیریت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ایک ڈائری میں تمام معلومات لکھیں اور ایک مہینے کے بعد مجھ سے ملیں۔ وہ شخص اپنے اسکول...