یادوں کے چراغ

جدائیوں کا اک اور سال گزر گیا۔ میں کچھ دنوں سے اُداس تھا بہت اُداس۔ اماں اور ابا جی بہت یاد آ رہے تھے۔ میں نے پھیکے کو بلا بھیجا، چلے آؤ نا یار مل بیٹھیں تو کچھ ذکر خیر ہو بہت سی پرانی باتیں یاد آنے لگی ہیں ستانے لگی ہیں۔۔۔! “ایک منظر ہے کہ ہمدم ہمہ دم کھینچتے ہیں“ شاید عمر کے اس حصے میں یونہی ہوا کرتا ہے۔ “ہم نہیں ہوں گے تو ہماری باتوں کی سمجھ آئے گی پُتر“ ٹھیک ہی تو کہا کرتے تھے ابا جی۔ ڈھلتی شام پھیکے کے آنے کا سندیسہ لائی دل ٹہرنے لگا۔ ہم اُس رات یادوں سے چراغاں کرتے رہے کندن جیسی شام پہلو میں رکھے یاد رفتگاں سے دل کو سجاتے رہے۔ “محافظِ روش رفتگاں ہمیں تو ہیں ہمیں تو ہیں“ افتخار عارف صاحب نے کہا تھا۔ “گزشتگان محبت کے خواب لکھنے کو ابھی تو میں ہوں گزشتگان محبت کے خواب لکھنے کو ابھی تو میں ہوں مگر بعد ازاں کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے” مجھے وہ خواب لکھنے تھے مگر میں انہیں لکھنے کے لیئے روشنائی کہاں سے لاتا۔ پھیکے سے یاری بڑھی تو جانا اُس کے پاس ان خوابوں کو لکھنے کے لیئے سنہری روشنائی تھی۔ اُس کا ہاتھ تھام کر جو میں چلا تو جانا، جانے والوں کے دلوں سے ہو کر گزرنے والے راستے یہی تو تھے آنے والے کل کے لیئے جن پر سوغاتیں رکھی تھیں۔ پھیکا کہتا رہا میں سنتا رہا شام چین کی بانسری بجاتی رفتہ رفتہ رات میں ڈھلتی رہی وہ اپنی اماں کی باتیں بتا رہا تھا۔ صاحب جی اِک واری اماں کے بار بار کہنے پر بھی میں نے اپنی چپل نہیں اُٹھائی راہ میں پڑی رہی اماں نے کہا جب بھی اُٹھاؤ گے تم ہی اُٹھاؤ گے۔ میں سنی ان سنی کرتا رہا چپل وہیں پڑی رہی اور میں سو گیا اُس رات پیاس نے بے چین کیا پانی پینے اُٹھا تو اپنی اُسی چپل سے ٹھوکر کھا کر گرا ناک سے خون نکلنے لگا۔ نماز پڑھتی اماں سلام پھیر تے ہی میری طرف بھاگی دیکھ تجھے کہتی رہی کہ چپل یوں صحن کے درمیان نہ پھینکا کر پر تو سنتا کب ہے؟ مگر میں سُن رہا تھا صاحب جی اماں کی سرگوشیاں، سنی تھیں میں نے جب پانی پینے کے ارادے سے اُٹھا۔ وہ سجدے میں گری رب سے مانگ رہی تھی میرے لیئے منگتی بنی اس کے دربار میں تڑپ رہی تھی۔ اسے فرمانبردار بنا دے مالک۔ آج یہ چھوٹے چھوٹے کہنے مانے گا تو پھر تیرے بھی کہنے مانے گا۔ بالکل منگتی لگ رہی تھی اماں، ایسے تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی جویں بال (بچہ) ہی گواچ گیا ہو میں بہت شرمندہ ہوا تھا اور حیران بھی ایک چپل ہی تو تھی فیر کیا ہوا جو نہیں اُٹھائی اب گل سمجھ میں آتی ہے صاحب جی بات چپل کی نہیں تھی فرمانبرداری کی تھی۔ اُس گرنے نے پھر عمر بھر کبھی مجھے گرنے نہیں دیا صاحب جی۔ میں سمجھ گیا تھا فرمانبرداری اور اطاعت کے اُس مضمون کو جو سادہ لفظوں میں اماں نے میرے دل پر لکھا تھا۔ اماں کا بال گواچ ہی جاتا نا صاحب جی کیس کم دا ایسا پتر جو ماں کے حکم نہ مانے۔ حکم جو رب سے ملانے والے ہوں۔ ساری مائیں ایسی منگتیاں بن جائیں تو پھر ہماری دنیا سنور جائے گی صاحب جی۔ دل چاہتا ہے ڈھول پیٹ پیٹ کر اعلان کروں ۔ “ارے لوگو رب سے مانگو مانگ کر تو دیکھو” ہمیشہ کی طرح پھیکا رو رہا تھا اس کے آنسو میری بیٹھک میں چراغاں کر رہے تھے۔ دھیان کے پردے پر دور کہیں افتخار عارف صاحب اپنا کلام سنا رہے تھے۔ “مٹی تو سامنے کاحوالہ ہے اور بس کوزے میں جتنے رنگ ہیں دریا کے دم سے ہیں“ اُن کے اشعار میرے احساسات کا روپ دھارنے لگے یکے بعد دیگرے سب کے سب ایک ہی معنی دینے لگے تھے۔ اتنے میں پھیکے نے ایک اور بات چھیڑ دی، بات تھی یا دُکھتی رگ جس پر اُس نے نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا تھا۔ فیر صاحب جی اک واری میرا دوست وقار مجھ سے ناراض ہو گیا۔ میں بڑا چپ چُپ تھا، اماں کے پوچھنے پر ساری بات بتائی تو اماں نے کہا “قصور وار تو تُو ہی ہے پُتر۔۔۔ جا معافی منگ لے دیری نہ کر“ میں کہاں قصور وار ہوں اماں۔۔۔؟ تُو ہے پُتر۔۔۔! اوّل تو غلطی تیری ہے اور اگر فرض کر نہیں بھی ہے تو یاری میں کیا ہار کیا جیت جا معافی منگ لے دل کو سکون مل جائے گا۔ یار رُوٹھ جائے تو دل کی زمین بنجر ہو جاتی ہے پُتر۔ شام تک میں ٹال مٹول کرتا رہا۔ اندر کہیں کوئی مجھ میں بولتا رہا قصور تو تیرا ہی ہے۔ شام کو اماں میرا ہاتھ پکڑ کر وقار کے گھر لے گئی چل معافی منگ۔ میں کیا بتاؤں صاحب جی کتنا بھاری پتھر تھا۔ پہاڑ رکھا تھا جی جویں سینے پر معافی منگتے ہی سرک گیا۔ میں نے اُس رات خواب دیکھا میرا قد لمبا ہو گیا بہت لمبا۔ تب خواب سمجھ میں ہی نہیں آتے تھے صاحب جی۔ اماں کو بتایا تو متھا چُوم کر بولی معافی منگنے اور معاف کر دینے والوں کے قد لمبے ہی ہوا کرتے ہیں پُتر۔۔۔! میں نے کہا تھا نا صحبت یارِ دنیا بدل دیتی ہے پھیکے کی نیک صحبت ابا جی کی دعاؤں کا ثمر تھی وہ ہمارے لیئے ہمیشہ صحبتِ صالحین کی دعا مانگا کرتے تھے۔ شام رات میں ڈھلنے لگی ہم اپنے بزرگوں کی یادوں سے شام کو سجاتے رہے۔ باتیں ایک سی ہی تھیں بس اِک زرا سا لب و لہجے کا فرق تھا۔ نئے سال کے ماتھے پر جھومر کی طرح سجی یہ شام ہمیشہ چمکتی رہے گی پھیکا ابھی ابھی گیا ہے اس کے لفظوں کی اگر بتی میرے سرہانے سُلگ رہی ہے۔ “ساری مائیں منگتیاں بن جائیں ناں صاحب جی تو پھر دنیا سنور جائے گی” ٹھیک کہا تھا اُس نے میں سوچ رہا تھا۔ “گلی کوچوں میں ہنگامہ بپا کرنا پڑے گا جو دل میں ہے اب اُس کاتذکرہ کرنا پڑے گا “ تحریر محمد امیر عالم @EKohee

Comments

Popular posts from this blog

جنت کے حسین لمحات

ڈپریشن کا شکار معاشرہ